چائلڈ میرج پر پابندی کے قانون کے باوجود سندھ میں کم عمری کی شادیاں جاری ہیں، نگران وزیر قانون

سندھ کے نگران وزیر قانون و انسانی حقوق عمر سومرو نے اعتراف کیا ہے کہ صوبے میں چائلڈ میرج پر پابندی کا قانون موجود ہونے کے باوجود سندھ بھر میں 18 سال سے کم عمر بچوں کی شادیاں جاری ہیں۔

دارالحکومت کراچ میں وزارت انسانی حقوق کے تحت نجی ہوٹل میں "سندھ چائلڈ میرج ریسٹرین ایکٹ 2013 کے نفاذ” کے عنوان سے خطاب کرت ہوئے نگران وزیر قانون و انسانی حقوق محمد عمر سومرو کا کہنا تھا کہ سندھ میں قوانین تو بنائے جاتے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔

وزیر انسانی حقوق عمر سومرو کا کہنا تھ اکہ سندھ چائلڈ میرج ایکٹ پر کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر لیول پر کوئی عمل ہوتا نظر نہیں آرہا۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ چائلڈ میرج ریسٹرین ایکٹ 2013 کے تحت 18 سال سےکم عمر لڑکے لڑکیوں کی شادی غیر قانونی قرار دیئے جانے کے باوجود خلاف ورزی جاری ہے۔

عمر سومرو کا کہنا تھا کہ صوبے میں کم عمری کی شادیوں کی وجہ صرف غربت نہیں ہے، کبھی وٹہ سٹہ کے نام پر، کبھی جاگیرداری کے نام پر توکبھی زور و زبردستی کرکے بچیوں کی شادیاں کم عمری میں کردی جاتی ہیں۔

وزیر قانون و انسانی حقوق کا کہنا تھا کہ اسلام پہلا مذہب ہے جو شادی کو ایک قانونی حیثیت دیتا ہے، کم عمری کی شادیوں کو روکنے کے لیے اسکول، کالجز اور مدارس میں بھی آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔

وزیر انسانی حقوق کا کہنا تھا کہ مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے بھی اس قانون پر عمل درآمد نہیں کیا جاسکتا، کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی کو بھی ساتھ لے کر چلنا پڑے گا، اس کے بغیر ہم اس قانون پر عمل نہیں کروا سکتے اگرچہ فیڈرل شریعت کورٹ کے تحت بھی کم عمری کی شادیوں پر پابندی ہے۔

عمر سومرو نے یہ بھی کہا کہ محکمہ بلدیات کے ساتھ مل کر برتھ پالیسی بنانے کی ضرورت ہے، سندھ چائلڈ میرج قانون پر عملدرآمد کرانے کے لیے ڈسٹرکٹ لیول پر افسران تعینات کیے جانے چاہئیے۔